کیا اب مری کہانی میں
میں ہوں گلے تک پانی میں
جیسے میں شامل ہی نہیں
اپنی سر و سامانی میں
میری طرح ٹھہرے گا کون
سیل حرف و معانی میں
رکھو مجھے اک تنکے پر
دیکھو مجھے طغیانی میں
اک آئینہ توڑو اور
ڈالو مجھے حیرانی میں
اک کھنڈر ہوں یادوں کا
جھانکو مری ویرانی میں
بے پایاں بے حد و حساب
میں اپنی جولانی میں
گرد مری سب تیر و غزال
میں آگے ہوں روانی میں
لطف مجھے آتا ہے رمزؔ
اپنی مرثیہ خوانی میں
غزل
کیا اب مری کہانی میں
محمد احمد رمز