کوئے جاناں مجھ سے ہرگز اتنی بیگانہ نہ ہو
عین ممکن ہے کہ پھر تیری طرف آنا نہ ہو
عین ممکن ہے کہ دہراؤں حدیث دیگراں
آج جو میری زباں پر ہے وہ افسانہ نہ ہو
عین ممکن ہے کہ جا پہنچوں کسی مریخ پر
اس زمیں سے کوئی رشتہ کوئی یارانہ نہ ہو
پیر مے خانہ یہ ممکن ہے کہ میرا جانشیں
رند ہو پر واقف آداب مے خانہ نہ ہو
تو مجھے فرزانگی کا فن نہ سکھلا اے خرد
عین ممکن ہے کہ مجھ سا کوئی دیوانہ نہ ہو
عین ممکن ہے کہ میں تجھ سے بچھڑ جانے کے بعد
ایسا بن جاؤں کہ خود تیری جسے پروا نہ ہو
عین ممکن ہے کہ تیری بے رخی کو دیکھ کر
میں وہ کافر ہوں جو مسحور رخ زیبا نہ ہو
سوچ مت اے دوست تیرے بعد کیا ہوگا یہ سوچ
یعنی میرے بعد پھر مجھ سا کوئی پیدا نہ ہو
پھر نہ اٹھے کوئی عارف میری وضع خاص کا
اور مجھ سا شاعر سرشار و ہوش افزا نہ ہو
یعنی میرے بعد کوئی مرد حکمت آفریں
منظر حکمت پہ آئے اور فرزانہ نہ ہو
مجھ کو ترک دوستی کے اس قدر طعنے نہ دے
میں ترا دشمن نظر آنے لگوں ایسا نہ ہو
پھر کہے دیتا کہے دیتا کہے دیتا ہوں میں
کوئے جاناں مجھ سے ہرگز اتنی بیگانہ نہ ہو
غزل
کوئے جاناں مجھ سے ہرگز اتنی بیگانہ نہ ہو
رئیس امروہوی