EN हिंदी
کشاد ذہن و دل و گوش کی ضرورت ہے | شیح شیری
kushad zehn-o-dil-o-gosh ki zarurat hai

غزل

کشاد ذہن و دل و گوش کی ضرورت ہے

جعفر بلوچ

;

کشاد ذہن و دل و گوش کی ضرورت ہے
یہ زندگی ہے یہاں ہوش کی ضرورت ہے

سنائی دے گی یقیناً ضمیر کی آواز
مخاطبین سبک گوش کی ضرورت ہے

اب احتیاج نہیں سرو‌ قامتوں کی مجھے
مجھے تو اب کسی ہم دوش کی ضرورت ہے

خروش خم کا بھرم کھولنا ہے کیا مشکل
بس ایک رند بلا نوش کی ضرورت ہے

نگار صبح کے آنسو سمیٹنے کے لیے
گلوں کو وسعت آغوش کی ضرورت ہے

کہیں فقط متکلم سکوت کی حاجت
کہیں تکلم خاموش کی ضرورت ہے