کنوئیں جو پانی کی بن پیاس چاہ رکھتے ہیں
مگر نہنگ بھی دریا کی تھاہ رکھتے ہیں
شہادت اپنی گواہی پہ اب بھی ہے شاہد
شہید وہ ہیں جو حق کو گواہ رکھتے ہیں
یہ جان لیجئے پہچان دونوں کی ہے یہی
جو تاج راجا تو کشکول شاہ رکھتے ہیں
وہ خاک دھول چٹائیں گے اپنے دشمن کو
جو دل نہ قلب امیر سپاہ رکھتے ہیں
ہیں دنگ اپنی ہی دہشت کے ڈر سے دہشت گرد
یہ کالے ناگ ہیں دل بھی سیاہ رکھتے ہیں
جو لوگ اچھے ہیں رکھتے ہیں ٹھیک گھر کو وہی
خراب لوگ تو گھر کو تباہ رکھتے ہیں
ہماری ان کی سیاست کا رنگ خوب ہے واہ
کہ ہم امام تو وہ سربراہ رکھتے ہیں
جو اندھے آنکھوں کے ہیں اور نین مجھ کو ہے نام
وہ کور چشم بھی ہم پر نگاہ رکھتے ہیں
بنا کے قصر وفا شیر بولا حیدر کا
کٹا کے ہاتھ بھی ہم دست گاہ رکھتے ہیں
وقار حلمؔ علی والوں سے خدا کی قسم
پل صراط کے رستے بھی راہ رکھتے ہیں
غزل
کنوئیں جو پانی کی بن پیاس چاہ رکھتے ہیں
وقار حلم سید نگلوی