کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے
ہر زمانے میں شہادت کے یہی اسباب تھے
کوہ سے نیچے اتر کر کنکری چنتے ہیں اب
عشق میں جو آب جو تھے جنگ میں سیلاب تھے
ساز و ساماں تھے ظفر کے پر وہ شب میں لٹ گئے
خاک و خوں کے درمیاں کچھ خواب کچھ کم خواب تھے
کیا دم رخصت نظر آتے خطوط دلبری
نقش تھے اس چاند کے لیکن بہ شکل آب تھے
میں عدو کی جستجو میں تھا کہ اک پتھر لگا
مڑ کے دیکھا تو سناں تانے ہوئے احباب تھے
تھے بہت نایاب وہ نور قلم زور بیاں
شعلہ اٹھا جب جنوں کا پھر وہی نایاب تھے
کیا فراق و فیض سے لینا تھا مجھ کو اے نعیمؔ
میرے آگے فکر و فن کے کچھ نئے آداب تھے
غزل
کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے
حسن نعیم