کچھ اس مقام سے اب دل کا کارواں گزرے
یقیں کی حد سے جو گزرے تو بے زباں گزرے
یہ اتفاق کہاں ہے کہ آنکھ بھر آئی
محبتوں میں کوئی کیسے بے نشاں گزرے
مجھی سے ہو کے گزرتی ہے راہ دنیا کی
سو مجھ سے ہو کے زمیں اور آسماں گزرے
تعلقات میں وہ مرحلے بھی کیسے تھے
یقین اور گماں کے جو درمیاں گزرے
طلسم رنگ میں الجھے ہوئے ہیں سب دانشؔ
جو دیکھنے ہیں وہ منظر ابھی کہاں گزرے
غزل
کچھ اس مقام سے اب دل کا کارواں گزرے
مدن موہن دانش

