کچھ تو وفا کا رنگ ہو دست جفا کے ساتھ
سرخی مرے لہو کی ملا لو حنا کے ساتھ
ہم وحشیوں سے ہوش کی باتیں فضول ہیں
پیوند کیا لگائیں دریدہ قبا کے ساتھ
صدیوں سے پھر رہا ہوں سکوں کی تلاش میں
صدیوں کی بازگشت ہے اپنی صدا کے ساتھ
پرواز کی امنگ نہ کنج قفس کا رنج
فطرت مری بدل گئی آب و ہوا کے ساتھ
کیا پتھروں کے شہر میں دوکان شیشہ گر
اک شمع جل رہی ہے غضب کی ہوا کے ساتھ

غزل
کچھ تو وفا کا رنگ ہو دست جفا کے ساتھ
ساغر مہدی