کچھ تو نیا کیا ہے ہوا نے پتا کرو
برہم ہیں کیوں چراغ پرانے پتا کرو
میرا بھی ایک ابر کے ٹکڑے پہ نام ہے
آئے گا کب وہ پیاس بڑھانے پتا کرو
کس کس نے سبز پیڑ گرائے ہیں اس برس
بارش نے آندھیوں نے ہوا نے پتا کرو
کچھ دن سے مصلحت کا جنازہ اٹھائے ہیں
جائیں گے کس طرف یہ دیوانے پتا کرو
شہرت کی روشنی ہو کہ نفرت کی تیرگی
کیا کیا اسے دیا ہے خدا نے پتا کرو
دنیا پہ کوئی عیب لگانے سے پیشتر
دنیا کے سارے عیب پرانے پتا کرو
انجمؔ کو حافظے پہ بہت اپنے ناز ہے
کھاتا ہے کس اناج کے دانے پتا کرو
غزل
کچھ تو نیا کیا ہے ہوا نے پتا کرو
انجم بارہ بنکوی