EN हिंदी
کچھ تو نیا کیا ہے ہوا نے پتا کرو | شیح شیری
kuchh to naya kiya hai hawa ne pata karo

غزل

کچھ تو نیا کیا ہے ہوا نے پتا کرو

انجم بارہ بنکوی

;

کچھ تو نیا کیا ہے ہوا نے پتا کرو
برہم ہیں کیوں چراغ پرانے پتا کرو

میرا بھی ایک ابر کے ٹکڑے پہ نام ہے
آئے گا کب وہ پیاس بڑھانے پتا کرو

کس کس نے سبز پیڑ گرائے ہیں اس برس
بارش نے آندھیوں نے ہوا نے پتا کرو

کچھ دن سے مصلحت کا جنازہ اٹھائے ہیں
جائیں گے کس طرف یہ دیوانے پتا کرو

شہرت کی روشنی ہو کہ نفرت کی تیرگی
کیا کیا اسے دیا ہے خدا نے پتا کرو

دنیا پہ کوئی عیب لگانے سے پیشتر
دنیا کے سارے عیب پرانے پتا کرو

انجمؔ کو حافظے پہ بہت اپنے ناز ہے
کھاتا ہے کس اناج کے دانے پتا کرو