EN हिंदी
کچھ تو میں بھی ڈرا ڈرا سا تھا | شیح شیری
kuchh to main bhi Dara Dara sa tha

غزل

کچھ تو میں بھی ڈرا ڈرا سا تھا

سلمان اختر

;

کچھ تو میں بھی ڈرا ڈرا سا تھا
اور کچھ راستا نیا سا تھا

جھوٹ اور سچ کے درمیاں تھا جو
آج وہ پل بھی ٹوٹتا سا تھا

جس سے سارے چراغ جلتے تھے
وہ چراغ آج کچھ بجھا سا تھا

راس آئے نہ اس کے رسم و رواج
شہر ہم سے خفا خفا سا تھا

بت سمجھتے تھے جس کو سارے لوگ
وہ مرے واسطے خدا سا تھا