کچھ تو میں بھی ڈرا ڈرا سا تھا
اور کچھ راستا نیا سا تھا
جھوٹ اور سچ کے درمیاں تھا جو
آج وہ پل بھی ٹوٹتا سا تھا
جس سے سارے چراغ جلتے تھے
وہ چراغ آج کچھ بجھا سا تھا
راس آئے نہ اس کے رسم و رواج
شہر ہم سے خفا خفا سا تھا
بت سمجھتے تھے جس کو سارے لوگ
وہ مرے واسطے خدا سا تھا
غزل
کچھ تو میں بھی ڈرا ڈرا سا تھا
سلمان اختر