کچھ تو حاصل ہو گیا عرفان میخانہ مجھے
آج پیمانے کو میں تکتا ہوں پیمانہ مجھے
دار پر نغموں کا چھا جانا کوئی آساں نہیں
ساز کیا کم تھا جو بخشا سوز پروانہ مجھے
جوڑ ڈالے کتنے ساغر کتنے مینا کتنے دل
اک ذرا جو مل گئی تھی خاک مے خانہ مجھے
زندگی اپنی حقیقت ہی حقیقت تھی مگر
آج دنیا نے بنا ڈالا ہے افسانہ مجھے
رشتۂ دیرینۂ وحشت نہ ٹوٹا آج تک
یاد ویرانے کو میں کرتا ہوں ویرانہ مجھے
صبح کعبہ شام بت خانہ کی ہے مجھ کو تلاش
ڈھونڈھتی ہے صبح کعبہ شام بت خانہ مجھے

غزل
کچھ تو حاصل ہو گیا عرفان میخانہ مجھے
رضا جونپوری