EN हिंदी
کچھ تو ایسے ہیں کہ جن سے پھر ملا جاتا نہیں | شیح شیری
kuchh to aise hain ki jin se phir mila jata nahin

غزل

کچھ تو ایسے ہیں کہ جن سے پھر ملا جاتا نہیں

مصطفی شہاب

;

کچھ تو ایسے ہیں کہ جن سے پھر ملا جاتا نہیں
ایک وہ بھی ہے بنا جس کے رہا جاتا نہیں

ہوتے ہوتے میں پہنچ جاتا ہوں اپنے آپ تک
اس سے آگے اور کوئی راستہ جاتا نہیں

کتنی دھیمی ہو گئی ہے آنچ اپنے پیار کی
ہم دھوئیں میں گھر گئے ہیں اور جلا جاتا نہیں