کچھ تغافل ہے تو کچھ ناز و ادا کاری ہے
قہر کا قہر ہے دل داری کی دل داری ہے
التفات نگہ ناز سے بچ کر رہنا
جذبۂ عشق ترے قتل کی تیاری ہے
شفقتیں زندہ ہیں اخلاص کی بنیادوں پر
اب بھی کچھ لوگوں میں پہلے سی رواداری ہے
یہی تہذیب تو ورثے میں ملی ہے مجھ کو
تم انا سمجھے ہو جس کو مری خودداری ہے
سلسلہ ختم حجابات کا ہوتا ہی نہیں
آئنہ دیکھنے والے کو بھی دشواری ہے
آج کی رات ہے طوفان کے آنے کی خبر
آج کی رات چراغوں پہ بہت بھاری ہے
لوگ خوش فہم ہیں یا خواب گزیدہ عالمؔ
جاگتے رہنے کو سمجھے ہیں کہ بیداری ہے

غزل
کچھ تغافل ہے تو کچھ ناز و ادا کاری ہے
س۔ ش۔ عالم