کچھ صلہ ہی نہ ملا عشق میں جل جانے کا
شمع نے لوٹ لیا سوز بھی پروانے کا
ضبط فریاد کی بے سود توقع دل سے
ظرف کیوں دیکھیے ٹوٹے ہوئے پیمانے کا
میرا مٹنا نہیں آسان محبت کی قسم
موت ہے نام ترے دل سے اتر جانے کا
حشر تک روئے گی دنیائے محبت مجھ کو
سلسلہ ختم نہ ہوگا مرے افسانے کا
موت کی نیند سے انساں کو جگا دیتی ہے
جس حقیقت میں ذرا رنگ ہو افسانے کا
اس طرح مجھ سے مخاطب ہے زمانہ جیسے
ہوش کی فکر بھی اک فرض ہو دیوانے کا
ان کے انداز ستم کا ہے تقاضا باسطؔ
عہد کر لیجئے مر مر کے جئے جانے کا

غزل
کچھ صلہ ہی نہ ملا عشق میں جل جانے کا
باسط بھوپالی