EN हिंदी
کچھ سہمی شرمائی خوشبو | شیح شیری
kuchh sahmi sharmai KHushbu

غزل

کچھ سہمی شرمائی خوشبو

خواجہ ساجد

;

کچھ سہمی شرمائی خوشبو
رات گئے گھر آئی خوشبو

آنکھ کے روشن دان سے اتری
دل میں ایک پرائی خوشبو

آزادی کا ہاتھ پکڑ کر
بازاروں میں آئی خوشبو

تیز بہت بازار تھا اب کے
میرے ہاتھ نہ آئی خوشبو

تھک کر باسی ہو جانے سے
پہلے گھر لوٹ آئی خوشبو

رات کے سناٹوں میں بولے
خاموشی تنہائی خوشبو