کچھ نظر آتا نہیں ہے وہ اجالا کر دیا
سب ہی اپنا آپ بھولے وہ تماشا کر دیا
کان بھی پڑتی نہیں ہے اب تو آواز ضمیر
کھوکھلے ذہنوں نے اتنا شور برپا کر دیا
ہاتھ خالی ہیں ہمارے اور کچھ رب جلیل
تو نے جو کچھ بھی لکھا تھا ہم نے پورا کر دیا
مسئلے جیسے چٹانیں رہنما جیسے ہوا
وقت نے کتنے فلک بوسوں کو بونا کر دیا
چنتا پھرتا ہوں میں اپنے آپ وہی رات دن
زندگی نے یوں بکھیرا ریزہ ریزہ کر دیا

غزل
کچھ نظر آتا نہیں ہے وہ اجالا کر دیا
محمود شام