کچھ نیا کرنے کی خواہش میں پرانے ہو گئے
بال چاندی ہو گئے بچے سیانے ہو گئے
زندگی ہنسنے لگی پرچھائیوں کے شہر میں
چاند کیا ابھرا کہ سب منظر سہانے ہو گئے
ریت پر تو ٹوٹ کر برسے مگر بستی پہ کم
اس نئی رت میں تو بادل بھی دوانے ہو گئے
بادلوں کو دیکھ کر وہ یاد کرتا ہے مجھے
اس کہانی کو سنے کتنے زمانے ہو گئے
جوڑتا رہتا ہوں اکثر ایک قصے کے ورق
جس کے سب کردار لوگو بے ٹھکانے ہو گئے
میرؔ کا دیوان آنکھیں جسم قائمؔ کی غزل
جانے کس کے نام میرے سب خزانے ہو گئے
ریت پر اک نا مکمل نقش تھا قربت کا خواب
فاصلہ بڑھنے کے اکملؔ سو بہانے ہو گئے
غزل
کچھ نیا کرنے کی خواہش میں پرانے ہو گئے
فصیح اکمل