کچھ نہیں سمجھا ہوں اتنا مختصر پیغام تھا
کیا ہوا تھی جس ہوا کے ہاتھ پر پیغام تھا
اس کو آنا تھا کہ وہ مجھ کو بلاتا تھا کہیں
رات بھر بارش تھی اس کا رات بھر پیغام تھا
لینے والا ہی کوئی باقی نہیں تھا شہر میں
ورنہ تو اس شام کوئی در بدر پیغام تھا
منتظر تھی جیسے خود ہی تنکا تنکا آرزو
خار و خس کے واسطے گویا شرر پیغام تھا
کیا مسافر تھے کہ تھے رنج سفر سے بے نیاز
آنے جانے کے لیے اک رہگزر پیغام تھا
کوئی کاغذ ایک میلے سے لفافے میں تھا بند
کھول کر دیکھا تو اس میں سر بہ سر پیغام تھا
ہر قدم پر راستوں کے رنگ تھے بکھرے ہوئے
چلنے والوں کے لیے اپنا سفر پیغام تھا
کچھ صفت اس میں پرندوں اور پتوں کی بھی تھی
کتنی شادابی تھی اور کیسا شجر پیغام تھا
اور تو لایا نہ تھا پیغام ساتھ اپنے ظفرؔ
جو بھی تھا اس کا یہی عیب و ہنر پیغام تھا
غزل
کچھ نہیں سمجھا ہوں اتنا مختصر پیغام تھا
ظفر اقبال