EN हिंदी
کچھ نہیں کھلتا ابتدا کیا ہے | شیح شیری
kuchh nahin khulta ibtida kya hai

غزل

کچھ نہیں کھلتا ابتدا کیا ہے

دید راہی

;

کچھ نہیں کھلتا ابتدا کیا ہے
اس خرابات کی بنا کیا ہے

سوچتے ہیں کہ ابتدا کیا تھی
کاش سمجھیں کہ انتہا کیا ہے

نہیں تم ہو ہماری نظروں میں
ہم نہیں جانتے خدا کیا ہے

درد تم نے دیا عنایت کی
مگر اس درد کی دوا کیا ہے

ہم نے دنیا میں کیا نہیں دیکھا
دیکھیے اور دیکھنا کیا ہے