کچھ نہیں ہے تو یہ اندیشہ یہ ڈر کیسا ہے
اک اندھیرا سا بہ ہنگام سحر کیسا ہے
کیوں ہر اک راہ میں وحشت سی برستی ہے یہاں
ایک اک موڑ پہ یہ خوف و خطر کیسا ہے
پھر یہ سوچوں میں ہیں مایوسی کی لہریں کیسی
پھر یہ ہر دل میں اداسی کا گزر کیسا ہے
اس سے ہم چھانو کی امید بھلا کیا رکھیں
دھوپ دیتا ہے ہمیشہ یہ شجر کیسا ہے
روشنی ہے نہ ہواؤں کا گزر ہے اس میں
میرے حصے میں جو آیا ہے یہ گھر کیسا ہے
ایک مدت ہوئی آنکھوں سے بہے تھے آنسو
دامن شوق مگر آج بھی تر کیسا ہے
عمر بھر چل کے بھی پائی نہیں منزل ہم نے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ سفر کیسا ہے
ہم نے دیکھے تھے کئی خواب سہانے لیکن
تجربہ اب ہوا خوابوں کا نگر کیسا ہے
کیسے اگ آیا ہے آبادی میں ویرانہ خمارؔ
شہر کے بیچ یہ سنسان کھنڈر کیسا ہے
غزل
کچھ نہیں ہے تو یہ اندیشہ یہ ڈر کیسا ہے
سلیمان خمار