کچھ نہیں گرچہ تری راہ گزر سے آگے
دیکھنا کفر نہیں حد نظر سے آگے
خود فریبی کے لیے گرم سفر ہیں ورنہ
کیا ہے منزل کے سوا گرد سفر سے آگے
میرا افلاک بھی تسکین نظر ہو نہ سکا
تھے وہی شمس و قمر شمس و قمر سے آگے
زندگی وقت کی دیواروں میں محبوس رہی
کوئی پردہ نہ اٹھا شام و سحر سے آگے
آج کے دور کا دعویٰ ہے کہ عنقا کے سوا
کوئی عقدہ نہیں عرفان بشر سے آگے
قطرے قطرے کو ترستے رہے صحرا فارغؔ
جھوم کر اٹھے بھی بادل تو وہ برسے آگے
غزل
کچھ نہیں گرچہ تری راہ گزر سے آگے
فارغ بخاری