EN हिंदी
کچھ نہ پائی دل نے تسکیں اور کچھ پائی تو کیا | شیح شیری
kuchh na pai dil ne taskin aur kuchh pai to kya

غزل

کچھ نہ پائی دل نے تسکیں اور کچھ پائی تو کیا

صفی اورنگ آبادی

;

کچھ نہ پائی دل نے تسکیں اور کچھ پائی تو کیا
ایسی صورت سے تری صورت نظر آئی تو کیا

ایک دشمن کے کہے پر ناز وہ بھی اس قدر
اپنے مطلب کو کسی نے آپ کی گائی تو کیا

ہوش آنا تھا کہ وہ خاصے ستم گر بن گئے
ہائے ری قسمت کہ ان کو عقل بھی آئی تو کیا

او جفا پیشہ شگفتہ خاطری ہے اور شے
یوں ہنسی آنے کو رونے میں ہنسی آئی تو کیا

آپ اپنے دل سے پوچھیں آپ ہی سوچیں ذرا
میری آہوں میں اگر تاثیر بھی آئی تو کیا

میرے لاشے پر اگر تشریف بھی لائے تو ہیچ
بعد میرے ان کو میری یاد بھی آئی تو کیا

اپنی عادت سے وہ باز آ جائیں ممکن ہی نہیں
کہنے سننے سے گھڑی بھر کو حیا آئی تو کیا

کچھ نہ کچھ اغیار نے پٹی پڑھائی ہے ضرور
تم نے کھانے کو مرے سر کی قسم کھائی تو کیا

تھا جو کچھ تقدیر کا ہونا وہ ہو کر ہی رہا
کرنے والوں نے جو کی بھی چارہ فرمائی تو کیا

بے وفاؤں میں تو کچھ گنتی نہیں تیری طرح
ہم کو کہتی ہے اگر مخلوق سودائی تو کیا

اے صفیؔ ترک تعلق کر کے اتراتے ہو کیوں
عمر بھر میں یہ ہوئی ہے تم سے دانائی تو کیا