کچھ نہ کچھ ہو تو سہی انجمن آرائی کو
اپنے ہی خوں سے فروزاں کرو تنہائی کو
اب یہ عالم ہے کہ بیتی ہوئی برساتوں کی
اپنے ہی جسم سے بو آتی ہے سودائی کو
پاس پہنچے تو بکھر جائے گا افسوں سارا
دور ہی دور سے سنتے رہو شہنائی کو
کسی زنداں کی طرف آج ہوا کے جھونکے
پا بہ زنجیر لیے جاتے ہیں سودائی کو
کس میں طاقت ہے کہ گلشن میں مقید کر لے
اس قدر دور سے آئی ہوئی پروائی کو
وہ دہکتا ہوا پیکر وہ اچھوتی رنگت
چوم لے جیسے کوئی لالۂ صحرائی کو
بہت آزردہ ہو شہزادؔ تو کھل کر رو لو
ہجر کی رات ہے چھوڑو بھی شکیبائی کو
غزل
کچھ نہ کچھ ہو تو سہی انجمن آرائی کو
شہزاد احمد