کچھ نہ کیا ارباب جنوں نے پھر بھی اتنا کام کیا
دار بہ دار افتاد سے کھیلے زلف بہ زلف آرام کیا
ساون شعلے بھڑکے گلشن گلشن آگ لگی
کیسا سورج ابھرا جس نے صبح کو آتش نام کیا
تنہائی بھی سناٹے بھی دل کو ڈستے جاتے ہیں
رہ گیرو کس دیس میں آ کر ہم نے آج قیام کیا
قریۂ گل سے دشت بلا تک اہل ہوس کی یورش تھی
کچھ تو سمجھ کر دیوانوں نے ترک جادۂ عام کیا
رات کے ہاتھوں کب تک رہتا شہر نگاراں تیرہ و تار
اپنے لہو سے ہم نے چراغاں آخر گام بہ گام کیا
عیش بھی گزرے رنج بھی گزرے دل کی حالت ایک رہی
کب جشن آغاز منایا کب خوف انجام کیا
میرؔ کے گیانی لاکھوں دیکھے میرؔ سی کس میں بات عروجؔ
میری بیتی آپ نے کہہ لیں خود کو عبث بد نام کیا
غزل
کچھ نہ کیا ارباب جنوں نے پھر بھی اتنا کام کیا
عبد الرؤف عروج