EN हिंदी
کچھ نہ خط میں نہ کچھ جواب میں ہے | شیح شیری
kuchh na KHat mein na kuchh jawab mein hai

غزل

کچھ نہ خط میں نہ کچھ جواب میں ہے

خالد حسن قادری

;

کچھ نہ خط میں نہ کچھ جواب میں ہے
جو بھی کچھ ہے ترے حساب میں ہے

یہ وفا بھی جفا کے باب میں ہے
جان میری بھی اک عذاب میں ہے

تیرے جلوے سے مہر عالم تاب
نور جس طرح ماہتاب میں ہے

اپنی ہے اور منزل مقصود
آپ کا کوچہ پاتراب میں ہے

کچھ نہ سمجھے حقیقت عالم
سارا ہنگامہ ایک خواب میں ہے

تم نے کیا بات رات کہہ دی تھی
غیر بھی آج اضطراب میں ہے

رشک عشرت ہے لذت حسرت
کچھ گنہ میں ہے نے ثواب میں ہے

ہوش آئے گا اب قیامت کو
ساری دنیا ابھی تو خواب میں ہے

جب سے وعدہ کیا ہے آنے کا
قادریؔ ان کے رعب و داب میں ہے