کچھ نہ خط میں نہ کچھ جواب میں ہے
جو بھی کچھ ہے ترے حساب میں ہے
یہ وفا بھی جفا کے باب میں ہے
جان میری بھی اک عذاب میں ہے
تیرے جلوے سے مہر عالم تاب
نور جس طرح ماہتاب میں ہے
اپنی ہے اور منزل مقصود
آپ کا کوچہ پاتراب میں ہے
کچھ نہ سمجھے حقیقت عالم
سارا ہنگامہ ایک خواب میں ہے
تم نے کیا بات رات کہہ دی تھی
غیر بھی آج اضطراب میں ہے
رشک عشرت ہے لذت حسرت
کچھ گنہ میں ہے نے ثواب میں ہے
ہوش آئے گا اب قیامت کو
ساری دنیا ابھی تو خواب میں ہے
جب سے وعدہ کیا ہے آنے کا
قادریؔ ان کے رعب و داب میں ہے
غزل
کچھ نہ خط میں نہ کچھ جواب میں ہے
خالد حسن قادری