کچھ میں نے کہی ہے نہ ابھی اس نے سنی ہے
چتون ہے کہ تلوار لئے سر پہ کھڑی ہے
آنے کو ہے کوئی جو للک پھر سے ہوئی ہے
ڈوبے ہوئے سورج کی کرن پھوٹ رہی ہے
ہے پگھلی ہوئی آگ کہ جلتے ہوئے آنسو
لوکا وہیں اٹھا ہے جہاں بوند پڑی ہے
جب سکھ نہیں جینے میں تو اک روگ ہے جینا
سانس آئی ہے جب چوٹ کلیجے میں لگی ہے
کل کیا کہیں دیکھیں وہ بدلتی ہوئی چتون
سو آسرے ٹوٹے ہیں تو اک آس بندھی ہے
میں کچھ نہ کہوں اور وہ جو چاہے کہے جائیں
اب روکی ہوئی سانس گلا گھونٹ رہی ہے
کہنے کو تو آتی ہے انہیں ہاں بھی نہیں بھی
ہو جس پہ بھروسہ نہ وہی ہے نہ یہی ہے
ابھرے ہوے چھالے ہیں ہے روکا ہوا آنسو
بس بجھ چکی یہ آگ کہ پانی سے لگی ہے
غزل
کچھ میں نے کہی ہے نہ ابھی اس نے سنی ہے
آرزو لکھنوی