کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر
موسم ہے سرد مہر لہو ہے جماؤ پر
چوپال چپ ہے بھیڑ لگی ہے الاؤ پر
سب چاندنی سے خوش ہیں کسی کو خبر نہیں
پھاہا ہے ماہتاب کا گردوں کے گھاؤ پر
اب وہ کسی بساط کی فہرست میں نہیں
جن منچلوں نے جان لگا دی تھی داؤ پر
سورج کے سامنے ہیں نئے دن کے مرحلے
اب رات جا چکی ہے گزشتہ پڑاؤ پر
گلدان پر ہے نرم سویرے کی زرد دھوپ
حلقہ بنا ہے کانپتی کرنوں کا گھاؤ پر
یوں خود فریبیوں میں سفر ہو رہا ہے طے
بیٹھے ہیں پل پہ اور نظر ہے بہاؤ پر
موسم سے ساز غیرت گلشن سے بے نیاز
حیرت ہے مجھ کو اپنے چمن کے سبھاؤ پر
کیا دور ہے کہ مرہم زنگار کی جگہ
اب چارہ گر شراب چھڑکتے ہیں گھاؤ پر
تاجر یہاں اگر ہیں یہی غیرت یہود
پانی بکے گا خون شہیداں کے بھاؤ پر
پہلے کبھی رواج بنی تھی نہ بے حسی
نادم بگاڑ پر ہیں نہ خوش میں بناؤ پر
ہر رنگ سے پیام اترتے ہیں روح میں
پڑتی ہے جب نگاہ دھنک کے جھکاؤ پر
دانشؔ مرے شریک سفر ہیں وہ کج مزاج
ساحل نے جن کو پھینک دیا ہے بہاؤ پر
غزل
کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
احسان دانش