EN हिंदी
کچھ لوگ جو نخوت سے مجھے گھور رہے ہیں | شیح شیری
kuchh log jo naKHwat se mujhe ghur rahe hain

غزل

کچھ لوگ جو نخوت سے مجھے گھور رہے ہیں

یاور عباس

;

کچھ لوگ جو نخوت سے مجھے گھور رہے ہیں
ماحول سے شاید یہ بہت دور رہے ہیں

کیا کہیے کہ کیا ہو گیا اس شہر کا عالم
جس شہر میں الفت کے بھی دستور رہے ہیں

مجبور کسے کہتے ہیں یہ کون بتائے
پوچھے کوئی ان سے کہ جو مجبور رہے ہیں

کچھ لوگ سر دار رہے ہوں تو رہے ہوں
ہم ہیں کہ بہر طور سر طور رہے ہیں

ہنستے ہوئے چہروں پہ نہ جا سینوں میں ان کے
حالات کے ٹکراؤ سے ناسور رہے ہیں

اے شیخ غنیمت ہے اگر ہم کو سمجھ لو
ہم منصب تصدیق پہ مامور رہے ہیں

اک تم کہ خدائی کے بھی دعوے رہے تم کو
اک ہم کہ اس اقرار سے معذور رہے ہیں

سکان حرم کیا ہیں یہ مجھ سے کوئی پوچھے
اللہ کے گھر میں بھی یہ مغرور رہے ہیں

احسان بڑا بوجھ ہے اس خوف سے یاورؔ
دیوار کے سائے سے بھی ہم دور رہے ہیں