کچھ لوگ جی رہے ہیں خدا کے بغیر بھی
سناٹے گونجتے ہیں صدا کے بغیر بھی
مٹی کی مملکت میں نمو کی زکوٰۃ پر
زندہ ہیں پیڑ آب و ہوا کے بغیر بھی
یہ نفرتوں کے زرد الاؤ نہ ہوں گے سرد
پھیلے گی آگ تیز ہوا کے بغیر بھی
ربط و تعلقات کا موسم نہیں کوئی
بارش ہوئی ہے کالی گھٹا کے بغیر بھی
دنیا کے کار زار میں بچوں کو ماؤں نے
رخصت کیا ہے حرف دعا کے بغیر بھی
خوف خدا میں عمر گزاری تو کیا ملا
کچھ دن جئیں گے خوف خدا کے بغیر بھی
غزل
کچھ لوگ جی رہے ہیں خدا کے بغیر بھی
اسعد بدایونی