EN हिंदी
کچھ لہو تو فروزاں ہمارا بھی ہے | شیح شیری
kuchh lahu to farozan hamara bhi hai

غزل

کچھ لہو تو فروزاں ہمارا بھی ہے

محشر بدایونی

;

کچھ لہو تو فروزاں ہمارا بھی ہے
شہر پر اتنا احساں ہمارا بھی ہے

دیکھنا بخیۂ جامۂ وقت میں
ایک تار گریباں ہمارا بھی ہے

حق بیانوں کی خاطر ہے وسعت بڑی
کچھ یہی خواب زنداں ہمارا بھی ہے

وہ جو فرد وفا میں قلم زد ہوئے
نام ان میں نمایاں ہمارا بھی ہے

ہر کڑے وقت سے سہل گزرے مگر
ان دنوں دل پریشاں ہمارا بھی ہے

کچھ تو ڈھب ہو کہ اب اپنی نسلیں کہیں
یہ دیار بزرگاں ہمارا بھی ہے

جب سے جاگا ہے غزلوں میں شہر نوا
رتبہ داں ہر سخنداں ہمارا بھی ہے