کچھ خیال دل ناشاد تو کر لینا تھا
وہ نہیں تھا تو اسے یاد تو کر لینا تھا
کچھ اڑانوں کے لیے اپنے پروں کو پہلے
جنبش و جست سے آزاد تو کر لینا تھا
پھر ذرا دیکھتے تاثیر کسے کہتے ہیں
دل کو بھی شامل فریاد تو کر لینا تھا
کوئی تعمیر کی صورت بھی نکل ہی آتی
پہلے اس شہر کو برباد تو کر لینا تھا
قیس کے بعد غزالاں کی تسلی کے لیے
ہاشمیؔ دشت کو آباد تو کر لینا تھا
غزل
کچھ خیال دل ناشاد تو کر لینا تھا
منظور ہاشمی