کچھ کہوں کہنا جو میرا کیجیے
چاہنے والے کو چاہا کیجیے
حوصلہ تیغ جفا کا رہ نہ جائے
آئیے خون تمنا کیجیے
فتنۂ روز قیامت ہے وہ چال
آج وہ آتے ہیں دیکھا کیجیے
کس کو دیکھا ان کی صورت دیکھ کر
جی میں آتا ہے کہ سجدا کیجیے
فتنے سب برپا کئے ہیں حسن نے
میری الفت کو نہ رسوا کیجیے
حور جنت ان سے کچھ بڑھ کر سہی
ایک دل کیا کیا تمنا کیجیے
کر دیا حیرت نے مجھ کو آئنہ
بے تکلف منہ دکھایا کیجیے
جوش میں آ جائے رحمت کی طرح
ایک اک قطرہ کو دریا کیجیے
نام اگر درکار ہے مثل نگیں
ایک گھر میں جم کے بیٹھا کیجیے
مل چکے اب ملنے والے خاک کے
قبر پر جا جا کے رویا کیجیے
کون تھا کل باعث بے پردگی
آپ مجھ سے آج پردا کیجیے
کل کی باتوں میں تو کچھ نرمی سی ہے
آج پھر قاصد روانا کیجیے
راہ تکتے تکتے آسیؔ چل بسا
کیوں کسی سے آپ وعدا کیجیے
غزل
کچھ کہوں کہنا جو میرا کیجیے
آسی غازی پوری