کچھ کام تو آیا دل ناکام ہمارا
ٹوٹا ہے تو ٹوٹا ہی سہی جام ہمارا
جتنا اسے سمجھا کئے بیگانۂ تاثیر
اتنا تو نہ تھا جذبۂ دل خام ہمارا
یہ کون مقام آیا قدم اٹھتے نہیں ہیں
منزل پہ ٹھہرنا تو نہ تھا کام ہمارا
ہم جیسے تڑپتے ہیں تڑپتے رہے دن رات
کچھ کر نہ سکی گردش ایام ہمارا
یہ گردش پیمانہ ہے یا گردش تقدیر
ساقی کسی ساغر پہ تو ہو نام ہمارا
پھولوں کی ہنسی باعث تخریب چمن ہے
کانٹوں پہ نہیں ہے کوئی الزام ہمارا
ہم گردش ساغر کو نگاہوں میں لئے ہیں
دیکھے کوئی حسن طلب جام ہمارا
آغاز محبت ہی کا اعجاز کرم ہے
دل ہو گیا بیگانۂ انجام ہمارا
انداز تڑپنے کا جداگانہ ہے لیکن
ہے کوئی فگارؔ اور بھی ہم نام ہمارا
غزل
کچھ کام تو آیا دل ناکام ہمارا
فگار اناوی