کچھ اشارے وہ سر بزم جو کر جاتے ہیں
ناوک ناز کلیجے میں اتر جاتے ہیں
اہل دل راہ عدم سے بھی گزر جاتے ہیں
نام لیوا ترے بے خوف و خطر جاتے ہیں
سفر زیست ہوا ختم نہ سوچا لیکن
ہم کو جانا ہے کہاں اور کدھر جاتے ہیں
نگہ لطف میں ہے عقدہ کشائی مضمر
کام بگڑے ہوئے بندوں کے سنور جاتے ہیں
قابل دید ہے محشر میں خجالت ان کی
دو قدم چلتے ہیں رکتے ہیں ٹھہر جاتے ہیں
خوب بدنام کیا اپنی سیہ کاری نے
انگلیاں اٹھتی ہیں محشر میں جدھر جاتے ہیں
آنکھ کھل جاتی ہے چونک اٹھتے ہیں سونے والے
وہ دبے پاؤں جو تربت سے گزر جاتے ہیں
چارہ گر حاجت مرہم نہیں ان کو اصلاً
زخم دل لذت ایثار سے بھر جاتے ہیں
آہ سوزاں سے جو نکلے تھے ستارے شب غم
بن کے تارے وہی گردوں پہ بکھر جاتے ہیں
آج تک لوٹ کر آیا نہ جہاں سے کوئی
ہم صفیران جہاں ہم بھی ادھر جاتے ہیں
بحر غم میں وہی پھنستے ہیں جو ہوتے ہیں گراں
جو سبک ہوتے ہیں وہ پار اتر جاتے ہیں
کشتۂ ناز ترا کیوں نہ زمیں پر لوٹے
داغ دل جتنے ہیں اس طرح وہ بھر جاتے ہیں
غزل
کچھ اشارے وہ سر بزم جو کر جاتے ہیں
شیر سنگھ ناز دہلوی