کچھ اس طرح وہ نگاہیں چرائے جاتے ہیں
کہ اور بھی مرے نزدیک آئے جاتے ہیں
اس التفات گریزاں کو نام کیا دیجے
جواب دیتے نہیں مسکرائے جاتے ہیں
نگاہ لطف سے دیکھو نہ اہل دل کی طرف
دلوں کے راز زبانوں پہ آئے جاتے ہیں
وہ جن سے ترک تعلق کو اک زمانہ ہوا
نہ جانے آج وہ کیوں یاد آئے جاتے ہیں
تمہاری بزم کی کچھ اور بات ہے ورنہ
ہم ایسے لوگ کہیں بن بلائے جاتے ہیں
یہ دل کے زخم بھی کتنے عجیب ہیں اے شمسؔ
بہار ہو کہ خزاں مسکرائے جاتے ہیں
غزل
کچھ اس طرح وہ نگاہیں چرائے جاتے ہیں
شمس زبیری