EN हिंदी
کچھ اس طرح وہ دعا و سلام کر کے گیا | شیح شیری
kuchh is tarah wo dua-o-salam kar ke gaya

غزل

کچھ اس طرح وہ دعا و سلام کر کے گیا

علی یاسر

;

کچھ اس طرح وہ دعا و سلام کر کے گیا
مری طرف ہی رخ انتقام کر کے گیا

جہاں میں آیا تھا انساں محبتیں کرنے
جو کام کرنا نہیں تھا وہ کام کر کے گیا

اسیر ہوتے گئے بادل نا خواستہ لوگ
غلام کرنا تھا اس نے غلام کر کے گیا

جو درد سوئے ہوئے تھے وہ ہو گئے بیدار
یہ معجزہ بھی مرا خوش خرام کر کے گیا

ہے زندگی بھی وہی جو ہو دوسروں کے لئے
وہ محترم ہوا جو احترام کر کے گیا

یہ سرزمیں ہے جلال و جمال و عظمت کی
ہے خوش نصیب یہاں جو قیام کر کے گیا

ہے کون شاعر خوش فکر کون ہے فن کار
غزل بتائے گی اس میں نام کر کے گیا

اثر ہوا نہ ہوا بزم پر علی یاسرؔ
کلام کرنا تھا میں نے کلام کر کے گیا