کچھ اس طرح سے تصور میں آ رہا ہے کوئی
چراغ روح میں جیسے جلا رہا ہے کوئی
کوئی کلیم اٹھے ورنہ انتظار کے بعد
چراغ طورمحبت بجھا رہا ہے کوئی
وہ دیر کا تھا کہ کعبے کا یہ نہیں معلوم
مری خودی کا محافظ خدا رہا ہے کوئی
جو روکنا ہو تو آ بڑھ کے روک لے ورنہ
ترے حدود تغافل سے جا رہا ہے کوئی
رواں دواں نہیں بے وجہ کاروان حیات
مجھے ضرور کہیں سے بلا رہا ہے کوئی
بدل رہے ہیں جنون و خرد کے پیمانے
کس اہتمام تغیر سے آ رہا ہے کوئی
نہ کچھ ملال اسیری نہ خطرۂ صیاد
قفس سمجھ کے نشیمن بنا رہا ہے کوئی
زمین و چرخ نے انکار کر دیا جس سے
وہ بار دوش وفا پر اٹھا رہا ہے کوئی
جہان نو میں برنگ کشاکش پیہم
حیات نو کے سلیقے سکھا رہا ہے کوئی
خبر کرو یہ حقائق کے پاسبانوں کو
مجاز کھو کے حقیقت میں آ رہا ہے کوئی
نہ جانے کون سی منزل میں عشق ہے کہ مجھے
مرے حدود سے باہر بلا رہا ہے کوئی
ڈرو خدا سے بڑا بول بولنے والو
قریب ہم سے بھی بے انتہا رہا ہے کوئی
مجھے ستم میں اضافے کا غم نہیں لیکن
یقین کر کہ مرے بعد آ رہا ہے کوئی
نگاہ و لب میں ہنسی کی سکت نہیں لیکن
بہ جبر عشق و وفا مسکرا رہا ہے کوئی
یہ صبح و شام کی یورش یہ موسموں کی روش
کہ جیسے میرے تعاقب میں آ رہا ہے کوئی
کسی کو اس کی خبر ہی نہیں تھی کچھ احسانؔ
کہ مٹ کے اپنا زمانہ بنا رہا ہے کوئی
غزل
کچھ اس طرح سے تصور میں آ رہا ہے کوئی
احسان دانش