EN हिंदी
کچھ اس انداز سے ہیں دشت میں آہو نکل آئے | شیح شیری
kuchh is andaz se hain dasht mein aahu nikal aae

غزل

کچھ اس انداز سے ہیں دشت میں آہو نکل آئے

سید منظور حیدر

;

کچھ اس انداز سے ہیں دشت میں آہو نکل آئے
کہ ان کو دیکھ کر پھولوں کے بھی آنسو نکل آئے

فلک کو کون سی وادی برہنہ سر نظر آئی
گرجتے بادلوں کے لشکری ہر سو نکل آئے

ابھی تو ایک ہی دل کا دریچہ وا کیا میں نے
یہاں بہر زیارت کس قدر جگنو نکل آئے

جو سجدے کی نہیں تو رقص کرنے کی اجازت ہو
کسی سینے سے جب باہر تری خوشبو نکل آئے

اسی امید پر کاٹا سفر تاریک راہوں کا
نہ جانے کون سے گنبد سے وہ مہ رو نکل آئے

چمن زار وفا میں موسموں کی اپنی فطرت ہے
بریدہ ایک بازو سے کئی بازو نکل آئے

کبھی تو احتیاط زہد سے حائل ہوئے پردے
کبھی مستی میں بھی تسبیح کے پہلو نکل آئے