کچھ اس ادا سے ہمیں غم گسار ملتے ہیں
ہزار زخم پس اعتبار ملتے ہیں
شب فراق کی وحشت نہ پوچھئے ہم سے
ہم اپنے ہجر سے دیوانہ وار ملتے ہیں
یہ شہر زخم فروشاں ہے ہائے کیا کیجے
کہ پائے گل بھی یہاں خار خار ملتے ہیں
وہ جن کی کوکھ میں شوق خرد پنپتا ہے
وہ ولولے بھی جنوں کا شکار ملتے ہیں
سجا کے رکھتے ہیں جن کو چمک کی خواہش میں
وہ آئنے بھی ہمیں داغدار ملتے ہیں
ہمیں انہی سے توقع ہے نازؔ منزل کی
جو راستے ہمیں بن کر غبار ملتے ہیں
غزل
کچھ اس ادا سے ہمیں غم گسار ملتے ہیں
ناز بٹ