کچھ حسینوں کی محبت بھی بری ہوتی ہے
کچھ یہ بے چپن طبیعت بھی بری ہوتی ہے
جیتے جی میرے نہ آئے تو نہ آئے اب آؤ
کیا شہیدوں کی زیارت بھی بری ہوتی ہے
آپ کی ضد نے مجھے اور پلائی حضرت
شیخ جی اتنی نصیحت بھی بری ہوتی ہے
اس نے دل مانگا تو انکار کا پہلو نہ ملا
خانہ برباد مروت بھی بری ہوتی ہے
اے حسنؔ آپ کہاں اور کہاں بزم شراب
پیر و مرشد بری صحبت بھی بری ہوتی ہے
غزل
کچھ حسینوں کی محبت بھی بری ہوتی ہے
حسن بریلوی