EN हिंदी
کچھ ہے جو یہ گمان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا | شیح شیری
kuchh hai jo ye guman na hota to Thik tha

غزل

کچھ ہے جو یہ گمان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا

امجد شہزاد

;

کچھ ہے جو یہ گمان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا
سر پر یہ آسمان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا

اچھا تھا گر زمین نہ ہوتی جہان میں
یا پھر کوئی جہان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا

انسان میہمان ہے دو چار روز کا
اس پر یہ امتحان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا

اپنی تلاش میں تو نہ پھرتا ادھرادھر
اتنا بڑا مکان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا

تجھ سے مرا معاملہ ہوتا بہ راہ راست
یہ عشق درمیان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا

کیسا عجیب ہے کہ میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں
میرا کہیں نشان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا