کچھ ہے جو یہ گمان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا
سر پر یہ آسمان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا
اچھا تھا گر زمین نہ ہوتی جہان میں
یا پھر کوئی جہان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا
انسان میہمان ہے دو چار روز کا
اس پر یہ امتحان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا
اپنی تلاش میں تو نہ پھرتا ادھرادھر
اتنا بڑا مکان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا
تجھ سے مرا معاملہ ہوتا بہ راہ راست
یہ عشق درمیان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا
کیسا عجیب ہے کہ میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں
میرا کہیں نشان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا
غزل
کچھ ہے جو یہ گمان نہ ہوتا تو ٹھیک تھا
امجد شہزاد