EN हिंदी
کچھ حد بھی اے فلک ستم ناروا کی ہے | شیح شیری
kuchh had bhi ai falak sitam-e-na-rawa ki hai

غزل

کچھ حد بھی اے فلک ستم ناروا کی ہے

رسول جہاں بیگم مخفی بدایونی

;

کچھ حد بھی اے فلک ستم ناروا کی ہے
ہر سانس داستاں ترے جور و جفا کی ہے

حاجت روا کی اور نہ ضرورت دعا کی ہے
اب چھوڑ چارہ ساز جو مرضی خدا کی ہے

دامان ضبط چاک تو کر دے جنوں مگر
توہین یہ مرے دل غم آشنا کی ہے

خون‌ حیات خون طرب خون آرزو
یہ شرح مختصر مری عمر وفا کی ہے

غیرت نے میری خود ہی سفینہ ڈبو دیا
دیکھا نظر پھری ہوئی کچھ ناخدا کی ہے

بربادیوں سے درس بقا لے رہی ہوں میں
یہ سنت کہن شہ کرب و بلا کی ہے

عرفان غم سے نفس کا عرفاں ہوا نصیب
سیڑھی یہ پہلی معرفت کبریا کی ہے

ہم سے خزاں نصیب قفس میں بھی شاد ہیں
لائی جو بوئے گل یہ عنایت صبا کی ہے

خودداریوں نے زیست کو آساں بنا دیا
بیتابیوں کی خو ہے نہ آہ و بکا کی ہے

مانا کہ تجھ کو عیش کی جنت نصیب ہے
تحقیر غم نہ کر کہ یہ نعمت خدا کی ہے

اس زندگی نے ساتھ کسی کا نہیں دیا
کس بے وفا سے تجھ کو تمنا وفا کی ہے

کشتی کو میری موجوں سے پہنچا نہیں گزر
منت گداز یہ کرم ناخدا کی ہے

مخفیؔ پناہ چادر زہرا نہ چھوڑنا
تعلیم نو سنا ہے کہ دشمن حیا کی ہے