کچھ دنوں قائم رہے اے مہ جبیں اتنی نہیں
جس نہیں کا ڈر ہے وہ تیری نہیں اتنی نہیں
وہ یہ کہتے ہیں جھٹک کر میرے دست شوق کو
تیرے ہاتھ آئے ہماری آستیں اتنی نہیں
مجھ سے کیا باتیں بناتے ہو مجھے معلوم ہے
لوٹ لے دل کو نگاہ شرمگیں اتنی نہیں
خاک پر گر کر کسی دن خاک میں مل جائے گا
باندھ رکھے دل کو زلف عنبریں اتنی نہیں
نوحؔ ہم اس بحر میں کچھ اور لکھتے چند شعر
کیا مضامیں کو ہو گنجائش زمیں اتنی نہیں
غزل
کچھ دنوں قائم رہے اے مہ جبیں اتنی نہیں
نوح ناروی