کچھ دن تو کر تعاون اے خوش صفات مجھ سے
تنہا نہ ہو سکے گی تطہیر ذات مجھ سے
فریاد اے سماعت انصاف اے فراست
کرتے ہیں اہل دنیا دنیا کی بات مجھ سے
حیران ہوں کہ اس تک کس کس جہت سے پہنچوں
آوارگیٔ طلب ہیں صد ہا جہات مجھ سے
کیوں اے حیات رفتہ روکے ہوئے ہے رستہ
کیا چاہتی ہے آخر اے بے ثبات مجھ سے
یونان کے سخی تو تلخاب نذر کر دیں
پانی عزیز رکھیں اہل فرات مجھ سے
گردش میں ہیں ستارے ہے کوئی جو پکارے
آ اے غریب کوچہ لے جا ذکات مجھ سے
وا ہے دریچۂ دل اک چیخ بن کے در آ
سرگوشیاں کہاں تک اے سرد رات مجھ سے
غزل
کچھ دن تو کر تعاون اے خوش صفات مجھ سے
انور شعور