کچھ دن کی رونق برسوں کا جینا
ساری جوانی آدھا مہینہ
دنیائے دل کی رسمیں نرالی
بے موت مرنا بے آس جینا
روکا تھا دم بھر لہراتا آنسو
آ آ گیا ہے دانتوں پسینہ
وہ ایسے ہی ہیں جا رے جوانی
جو خود ہی بخشا وہ خود ہی چھینا
جس کا تھا وعدہ وہ کل نہ آئی
دن گنتے گزرا سارا مہینہ
منہ پر صفائی اور چور دل میں
آئینہ پھینکو پونچھو پسینہ
بس آرزوؔ بس فردا کا وعدہ
برسوں کی باتیں دو دن کا جینا
غزل
کچھ دن کی رونق برسوں کا جینا
آرزو لکھنوی