کچھ دیر تو دنیا مرے پہلو میں کھڑی تھی
پھر تیر بنی اور کلیجے میں گڑی تھی
آنکھوں کی فصیلوں سے لہو پھوٹ رہا تھا
خوابوں کے جزیرے میں کوئی لاش پڑی تھی
سب رنگ نکل آئے تھے تصویر سے باہر
تصویر وہی جو مرے چہرے پہ جڑی تھی
میں چاند ہتھیلی پہ لیے جھوم رہا تھا
اور ٹوٹتے تاروں کی ہر اک سمت جھڑی تھی
الفاظ کسی سائے میں دم لینے لگے تھے
آواز کے صحرا میں ابھی دھوپ کڑی تھی
پھر میں نے اسے پیار کیا دل میں اتارا
وہ شکل جو کمرے میں زمانے سے پڑی تھی
ہر شخص کے ہاتھوں میں تھا خود اس کا گریباں
اک آگ تھی سانسوں میں اذیت کی گھڑی تھی
غزل
کچھ دیر تو دنیا مرے پہلو میں کھڑی تھی
عزیز نبیل