EN हिंदी
کچھ دیر میری خاک اڑی ہے مری جگہ | شیح شیری
kuchh der meri KHak uDi hai meri jagah

غزل

کچھ دیر میری خاک اڑی ہے مری جگہ

ذیشان الٰہی

;

کچھ دیر میری خاک اڑی ہے مری جگہ
صحرا میں اس کے بعد تہی ہے مری جگہ

میں لے رہا ہوں دشت سے چھٹی سو میرے بعد
تخت جنوں پہ بیٹھے کوئی ہے مری جگہ

میں تو ادھر کھڑا ہوں ادھر چیختا ہے کون
یہ کس کو آگ لگنے لگی ہے مری جگہ

میرا ہنر ہے یہ تری دریا دلی نہیں
اب تک جو تیرے دل میں بنی ہے مری جگہ

اپنی تو آرزو ہے نہ مرضی نہ ہی پسند
تو جس جگہ بٹھا دے وہی ہے مری جگہ

سب دیکھتا ہوں بولتا لیکن میں کچھ نہیں
تصویر جیسے میری پڑی ہے مری جگہ

باشندگان چرخ مری فکر چھوڑ دیں
خوش ہوں زمین پر کہ یہی ہے مری جگہ

تصویر میں تو اپنی جگہ پر ہے میں نہیں
اک اجنبی سی شکل کھڑی ہے مری جگہ

اب دیکھو فرق باغ پہ پڑتا ہے اس سے کیا
ذیشانؔ رت بدل تو گئی ہے مری جگہ