کچھ دفن ہے اور سانس لیے جاتا ہے
اک سانپ ہے جو قلب میں لہراتا ہے
اک گونج ہے جو خون میں چکراتی ہے
اک راز ہے پر پیچ ہوا جاتا ہے
اک شور ہے جو کچھ نہیں سننے دیتا
اک گھر ہے جو بازار ہوا جاتا ہے
اک بند کلی ہے جو کھلی پڑتی ہے
اک دشت بلا ہے کہ جلا جاتا ہے
اک خوف ہے جو کچھ نہیں کرنے دیتا
اک خواب ہے جو نیند میں تڑپاتا ہے
دو پاؤں ہیں جو ہار کے رک جاتے ہیں
اک سر ہے جو دیوار سے ٹکراتا ہے

غزل
کچھ دفن ہے اور سانس لیے جاتا ہے
سہیل احمد زیدی