کچھ بول گفتگو کا سلیقہ نہ بھول جائے
شیشے کے گھر میں تجھ کو بھی رہنا نہ بھول جائے
وا رکھ سدا دریچۂ خود آگہی کہ تو
اچھے تو کیا بروں کو پرکھنا نہ بھول جائے
زخم نہاں کو شوق طلب سے جدا نہ کر
ہوتا ہے روز و شب جو تماشا نہ بھول جائے
کر دیں نہ بے طلب یہ مسلسل اذیتیں
دل بھی کہیں وفا کا سلیقہ نہ بھول جائے
منزل کا نشہ قربت منزل نہ چھین لے
اپنی گلی میں آ کے ہی رستہ نہ بھول جائے
مت رکھ تضاد ظاہر و باطن کہ آدمی
تجھ کو ترے عمل سے پرکھنا نہ بھول جائے
وہ بھیڑ ہے کہ شہر میں چلنا محال ہے
انگلی پکڑنا باپ کی بچہ نہ بھول جائے
ناہیدؔ رفعتیں تو ملیں گی بہت مگر
آنکھوں کو اپنے شہر کا نقشہ نہ بھول جائے
غزل
کچھ بول گفتگو کا سلیقہ نہ بھول جائے
کشور ناہید

