کچھ بھی کر پائے نہ ہم ہجر کی حیرانی میں
گھر بھی ویران کیا دل کی پریشانی میں
رنگ ہی رنگ ہیں بکھرے ہوئے دامن میں مرے
رچ گیا ہے مری آنکھوں کا لہو پانی میں
جسم اپنا بھی مہکتا ہوا گلزار لگا
پھر ترے غم کی ہوا آئی ہے جولانی میں
یوں نگاہوں میں اترنے لگے یادوں کے نجوم
درد بھی محو ہوا آئنہ سامانی میں
اپنے خوابوں کے طلسمات سے باہر تو نکل
جسم کو چھو کے کبھی دیکھ تو عریانی میں
سخن گرم کے پردوں کو گرانے والا
چھپنے پایا نہ کبھی اپنی پشیمانی میں
خلوت دل کے اندھیروں میں وہ سورج نکلا
مند گئی آنکھ مری روح کی تابانی میں
عافیت ڈھونڈنے نکلے تھے خموشی میں ندیمؔ
گھر گئے اپنی ہی آواز کی طغیانی میں

غزل
کچھ بھی کر پائے نہ ہم ہجر کی حیرانی میں
صلاح الدین ندیم