کچھ بھی ہو اس سے جدائی کا سبب گھر جاؤ
ڈھل چکی شام اندھیرا ہوا اب گھر جاؤ
شب میں گھس آتے ہیں آسیب مرے شہروں میں
تاک میں رہتی ہے یہ وحشت شب گھر جاؤ
لوگ حق مانگنے پہنچے تھے شہنشاہ کے پاس
نوک خنجر پہ ملا حکم کے سب گھر جاؤ
نہیں یہ زخم قبیلے کے لیے باعث ناز
قتل ہو لو کسی تلوار سے تب گھر جاؤ
ان سے وابستہ ہیں بچپن کی ہزاروں یادیں
چوم لینا در و دیوار کو جب گھر جاؤ
گاؤں میں کوئی تمہارے لیے بیکل ہے شریفؔ
جانے کب تم کو خیال آئے گا کب گھر جاؤ

غزل
کچھ بھی ہو اس سے جدائی کا سبب گھر جاؤ
شریف احمد شریف